آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے (شکیب جلالی)

آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے

جتنے اس پیڑ کے پھل تھے پسِ دیوار گرے

ایسی دہشت تھی فضاؤں میں کھلے پانی کی

آنکھ جھپکی بھی نہیں ، ہاتھ سے پتوار گرے

مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں

جس طرح سایئہ دیوار پہ دیوار گرے

تیرگی چھؤڑ گئے دل میں اجالے کے خطوط

یہ ستارے مرے گھر ٹوٹ کے بیکار گرے

کیا ہوا ہاتھ میں تلوار لیے پھرتی تھی

کیوں مجھے ڈھال بنانے کو یہ چھتنار گرے

دیکھ کر اپنے درو بام لرز جاتا ہوں

میرے ہمسائے میں جب بھی کوئی دیوار گرے

وقت کی ڈور اور خدا جانے کہاں سے ٹوٹے

کس گھڑی سر پہ یہ لٹکتی ہوئی تلوار گرے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *