میں جگنوؤں کی طرح رات بھر کا چاند ہوئی
ذرا سی دھوپ نکل آئی اور ماند ہوئی
حدودِ رقص سے آگے نکل گئی تھی کبھی
سو مورتی کی طرح عمر بھر کو راند ہوئی
مہ تمام! ابھی چھت پہ کون آیا تھا
کہ جس کے آگے تری روشنی بھی ماند ہوئی
ٹکے کا چارہ نہ گیاں کو زندگی میں دیا
جو مر گئی ہے تو سونے کے مول ناند ہوئی
نہ پوچھ کیوں اسے جنگل کی رات اچھی لگی
وہ لڑکی جو کہ کبھی تیرے گھر کا چاند ہوئی