نیند تو خواب ہے اور ہجر کی شب خواب کہاں (پروین شاکر)

نیند تو خواب ہے اور ہجر کی شب خواب کہاں

اس اماوس کی گھنی رات میں مہتاب کہاں

رنج سہنے کی مرے دل میں تب و تاب کہاں

اور یہ بھی ہے کہ پہلے سے وہ اعصاب کہاں

میں بھنور سے تو نکل آئی، اور اب سوچتی ہوں

موجِ ساحل نے کیا ہے مجھے غرقاب کہاں

میں نے سونپی تھی تجھے آخری پونجی اپنی

چھوڑ آیا ہے مری ناؤ تہِ آب کہاں

ہے رواں آگ کا دریا مری شریانوں میں

موت کے بعد بھی ہو جائے گا پایاب کہاں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *