شامِ وعدہ کا ڈھل گیا سایا
آںے والا ابھی نہیں آیا
زندگی کے غموں کو اپنا کر
ہم نے دراصل تم کو اپنایا
جستجو ہی دلوں کی منزل تھی
ہم نے کھو کر تجھے، تجھے پایا
زندگی نام ہے جدائی کا
آپ آئے تو مجھ کو یاد آیا
ہم نے تیری جفا کے پردے میں
خود بھی دل پر بہت ستم ڈھایا
زندگی سے تو خیر شکوہ تھا
مدتوں موت نے بھی ترسایا
شاد اہلِ طرب کو بھی اکثر
میری افسردگی پہ پیار آیا