پھر حریفِ بہار ہو بیٹھے (فیض احمد فیض)

پھر حریفِ بہار ہو بیٹھے

جانے کس کس کو آج رو بیٹھے

تھی، مگر اتنی رائیگاں بھی نہ تھی

آج کچھ زندگی سے کھو بیٹھے

تیرے در تک پہنچ کے لوٹ آئے

عشق کی آبرو ڈبو بیٹھے

ساری دنیا سے دور ہو جائے

جو ذرا تیرے پاس ہو بیٹھے

نہ گئی تیری بے رُخی نہ گئی

ہم تری آرزو ہی کھو بیٹھے

فیض ہوتا رہے جوہونا ہے

شعر لکھتے رہا کرو بیٹھے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *