محرابِ جاں میں شمع جلاتے نہیں ہو تم
اب مسکرا کے سامنے آتے نہیں ہو تم
پہلے مری نظر تھی اور ارزانئی جمال
اب خواب میں بھی شکل دکھاتے نہیں ہو تم
جس کا ہر ایک حرف تھا اک دفترِ نشاط
وہ بات اب زبان پہ لاتے نہیں ہو تم
یک لخت تم نے جوش کو دل سے بھلا دیا
اور اس میں بھید کیا ہے، بتاتے نہیں ہو تم