کون کہتا ہے کہ تجھ سی کوئی صورت نہ ملی (احمد ندیم قاسمی)

کون کہتا ہے کہ تجھ سی کوئی صورت نہ ملی

ہاں مگر مجھ کو تیری یاد سے  مہلت نہ ملی

درد چمکا کہ میری روح میں سورج اترا

عمر بھر راہِ وفا میں کہیں ظلمت نہ ملی

زندگی آج بھی بھرپور ہے ان کے دم سے

جن کو فرہاد کے انجام سے عبرت نہ ملی

مجھ کو اس شخص کے افلاس پہ رحم آتا ہے

جس کو ہر چیز ملی، صرف محبت نہ ملی

وہ بھی کیا علم کہ جس سے تجھے اے بحرِ علوم

دل کی وسعت نہ ملی، غم کی دیانت نہ ملی

سرِ بازار کہیں جُرم نہ ہو ہنسنا بھی

سرِ دربار تو رونے کی بھی رخصت نہ ملی

مار ڈالے گا اسے جُرم کا احساس ندیم

قتل کر کے جسے مقتول پہ سبقت نہ ملی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *