ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے (میر تقی میر)

ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے

اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے

نہیں آتے کسو کی آنکھوں میں

ہو کے عاشق بہت حقیر ہوئے

آگے یہ بے ادائیاں کب تھیں

ان دنوں تم بہت شریر ہوئے

ایک دم تھی نبود بود اپنی

یا سفیدی کی یا اخیر ہوئے

مت مل اہلِ دوَل کے لڑکوں سے

میر جی ان سے مل فقیر ہوئے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *