کیا چیز تھی، کیا چیز تھی ظالم کی نظر بھی (جگر مراد آبادی)

کیا چیز تھی، کیا چیز تھی ظالم کی نظر بھی
اُف کر کے وہیں بیٹھ گیا دردِ جگر بھی

یہ مجرمِ الفت ہے، تو وہ مجرمِ دیدار
دل لے کے چلے ہو تو لیے جاؤ نظر بھی

کیا دیکھیں گے ہم جلوہِ محبوب کہ ہم سے
دیکھی نہ گئی دیکھنے والے کی نظر بھی

مایوس شبِ ہجر نہ ہو اے دلِ بے تاب
اللہ دکھائے گا تو دیکھیں گے سحر بھی

جلووں کو ترے دیکھ کے جی چاہ رہا ہے
آنکھوں میں اتر آئے مرا کیفِ نظر بھی

واعظ نہ ڈرا مجھ کو قیامت کی سحر سے
دیکھی ہے ان آنکھوں نے قیامت کی سحر بھی

اُس دل کے تصدق جو محبت سے بھرا ہو
اُس درد کے صدقے جو ادھر بھی ہو اُدھر بھی

ہے فیصلہِ عشق جو منظور تو اُٹھئیے
اغیار بھی موجود ہیں حاضر ہے جگر بھی ​

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *