جگر کی آگ بجھے جس سے جلد وہ شے لا
لگا کے برف میں ساقی صراحئی مے لا
قدم کو ہاتھ لگاتا ہوں ، اُٹھ کہیں ، گھر چل
خدا کے واسطے اتنے تو پاؤں مت پھیلا
نکل کے وادئی وحشت سے دیکھ اے مجنوں !
کہ زور دھوم سے آتا ہے ناقئہ لیلیٰ
گرا جو ہاتھ سے فرہاد کے کہیں تیشہ
درونِ کوہ سے نکلی صدائے واویلا
نزاکت اس کے یہ مکھڑے کی دیکھ اے انشا
نسیمِ صبح جو چھو جائے رنگ ہو میلا