ایسے ڈرے ہیں کسی کی نگاہِ غضب سے ہم (غلام ہمدانی مصحفی)

 ایسے ڈرے ہیں کسی کی نگاہِ غضب سے ہم

بدخواب ہو گئے ہیں جو دو چار شب سے ہم

کب کامیابِ بوسہ ہوئے اس کے لب سے ہم

شرمندہ ہی رہے دلِ مطلب طلب سے ہم

یہ روز ڈھونڈ لائے ہے اک خوبرو نیا

شاکی ہیں اپنے ہی دلِ آفت طلب سے ہم

طرزِ خرامِ ناز کی بے اعتدالیاں

دیکھیں ہیں اور کچھ نہیں کہتے ادب سے ہم

کشتی ہماری بحر کی ہے منجدھار میں

نکلے ہیں کب کشاکشِ لطف و غضب سے ہم

برقعے میں ہو کہ پردۃ چادر میں خوبرو

پہچانتے ہیں وضع سے شوخی سے چھب سے ہم

 شغلِ شراب و شیشہ و ساقیِ نغمہ سنج

تائب ہوئے ہیں عالمِ پیری میں سب سے ہم

بے لطف زندگی کے ہیں دن ، آ بھی اے اجل

تیرے ہی انتظار میں بیٹھے ہیں کب سے ہم

فن اتنا کم کیا ہے کہ ان روزوں مصحفی

دل میں اک انس رکھتے ہیں شعرِ عرب سے ہم

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *