معشوق ہوں یا عاشقِ معشوق نما ہوں(غلام ہمدانی مصحفی)

معشوق ہوں یا عاشقِ معشوق نما ہوں
معلوم نہیں مجکو ۔ کہ میں کون ہوں- کیا ہوں

ہوں شاہدِ تننزیہہ کے رخسارہ کا پردہ
یا خود ہی میں شاہد ہوں ۔ کہ پردہ میں چھپا ہوں

ہستی کو مری ہستیِ عالم نہ سمجھنا
ہوں ہست – مگر ہستیِ عالم سے جدا ہوں

انداز ہیں سب عاشق و معشوق کے مجھ میں
سوزِ جگر و دل ہوں ۔ کبھی ناز و ادا ہوں

ہے مجھ سے گریبانِ گل و صبح معطر
میں عطر نسیمِ چمن و بادِ صبا ہوں

گوشِ شنوا ہو ۔ تو میری رمز کو سمجھے
حق یہ ہے ۔ کہ میں سازِ حقیقت کی صدا ہوں

یہ کیا ہے ۔ کہ مجھ پر مرا عقدہ نہیں کھلتا
ہر چند ۔ کہ خود عقدہ و خود عقدہ کشا ہوں

اے مصحفی شانیں ہیں مری جلو گری میں
ہر رنگ میں میں مظہرِ انوارِ خدا ہوں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *