وہ تو نہ مِل سکے ہمیں رُسوائیاں مِلیں (حکیم ناصر)

وہ تو نہ مِل سکے ہمیں رُسوائیاں مِلیں

لیکن ہمارے عِشق کو رعنائیاں مِلیں

آنکھوں میں اُن کی ڈُوب کے دیکھا ہے بارہا

جِن کی تھی آرزُو نہ وہ گہرائیاں مِلیں

آئینہ رکھ کے سامنے آواز دی اُسے

اُس کے بغیر جب مُجھے تنہائیاں مِلیں

آئے تھے وہ نظر مُجھے پُھولوں کے آس پاس

دیکھا قریب جا کے تو پرچھائیاں مِلیں

پُوچھا جو مَیں نے دِل کی تباہی کا ماجرا

ہنس کر جواب میں مُجھے انگڑائیاں مِلیں

ناصرؔ دِلِ تباہ نہ اُن کو دِکھا سکا

مِلنے کو بارہا اُسے تنہائیاں مِلیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *