کیا دید میں عالم کی کروں جلوہ گری کا (غلام ہمدانی مصحفی)

کیا دید میں عالم کی کروں جلوہ گری کا

یاں عمر کو وقفہ ہے چراغِ سحری کا

تربت پہ مِری برگِ گلِ تازہ چڑھائے

احسان ہے مجھ پہ یہ نسیمِ سحری کا

جو دیکھے ہے نقشے کو تِرے، وہ یہ کہے ہے

سارا بدن انسان کا ، چہرہ ہے پری کا

ہے جی میں کہ یک چند خبر اپنی نہ لیجے

کہتے ہیں کہ عالم ہے عجب بےخبری کا

نت فرشے زری بچھتے تھے دروازوں پہ جن کے

سو ان کو فلک نے کیا محتاج دری کا

اے مصحفی ! میں خط تو لکھوں لیک وہاں تک

ہر مُرغ کو ہے حوصلہ کب نامہ بری کا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *