کب ہوا اے بتِ بیگانہ منش تو اپنا
دل جو اپنا ہے نہیں اس پہ بھی قابو اپنا
تم کو آشفتہ مزاجوں کی خبر سے کیا کام
تم سنوارا کرو بیٹھے ہوئے گیسو اپنا
ابتدائے رمضاں میں ہے مہِ عید کی دھوم
کسی کافر نے دکھایا نہ ہو ابرو اپنا
بعد میرے نہ رہا دیکھنے والا کوئی
تم زمانے کو دکھاؤ رخِ نیکو اپنا
نہ بنا ہو یہ کہیں غیر کے سر کا تکیہ
مسکراتے ہیں وہ کیوں دیکھ کے زانو اپنا
وہی ہم تھے جو راتوں کو ہنسا دیتے تھے
اب ہے یہ حال کہ تھمتا نہیں آنسو اپنا
لگ گئی چپ تجھے اے داغِ حزیں کیوں ایسے
مجھ کو کچھ حال تو کمبخت بتا تو اپنا