عجب اپنا حال ہوتا، جو وصال یار ہوتا (داغ دہلوی)

عجب اپنا حال ہوتا، جو وصال یار ہوتا

کبھی جان صدقے ہوتی کبھی دل نثار ہوتا

کوئی فتنہ تا قیامت نہ پھر آشکار ہوتا

ترے دل پہ کاش ظالم مجھے اختیار ہوتا

جو تمہاری طرح تم سے کوئی جھوٹے وعدے کرتا

تمہیں منصفی سے کہہ دو تمہییں اعتبار ہوتا

یہ مزہ تھا دل لگی کا کہ برابر آگ لگتی

نہ تجھے قرار ہوتا نہ مجھے قرار ہوتا

نہ مزا ہے دشمنی میں نہ ہے لطف دوستی میں

کوئی غیر غیر ہوتا کوئی یار یار ہوتا

ترے وعدے پر ستمگر ابھی اور صبر کرتے

اگر اپنی زندگی کا ہمیں اعتبار ہوتا

تمہیں ناز ہو نہ کیونکر کہ لیا ہے داغ کا دل

یہ رقم نہ ہاتھ لگتی نہ یہ افتخار ہوتا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *