دل میں اس شوخ کے جو راہ نہ کی
ہم نے بھی جان دی پر آہ نہ کی
تھا بہت شوقِ وصل تو نے تو
کمی اے حسنِ تاب کاہ نہ کی
میں بھی کچھ خوش نہیں وفا کر کے
تم نے اچھا کیا نباہ نہ کی
محتسب یہ ستم غریبوں پر
کبھی تنبیہ بادشاہ نہ کی
گریہ و آہ بے اثر دونوں
کس نے کشتی مری تباہ نہ کی
تھا مقدر میں اس سے کم ملنا
کیوں ملاقات گاہ گاہ نہ کی
دیکھ دشمن کو اٹھ گیا بے دید
میرے احوال پر نگاہ نہ کی
مومن اس ذہن بے خطا پر حیف
فکر آمرزش گناہ نہ کی