ان کے اک جانثار ہم بھی ہیں (داغ دہلوی)

ان کے اک جانثار ہم بھی ہیں

ہیں جہاں سو ہزار ہم بھی ہیں

تم بھی بے چین ہم بھی ہیں بےچین

تم بھی ہو بے قرار بے قرار ہم بھی ہیں

اے فلک کہہ تو کیا ارادہ ہے

عیش کے خواستگار ہم بھی ہیں

شہر خالی کئے دکاں کیسی

ایک ہی بادہ خوار ہم بھی ہیں

شرم سمجھے ترے تغافل کو

واہ کیا ہوشیار ہم بھی ہیں

جس نے چاہا پھنسالیا ہم کو

دلبروں کے شکار ہم بھی ہیں

آئی مے خانے سے یہ کس کی صدا

لاؤ یاروں کے یار ہم بھی ہیں

لے ہی تو لے گی دل نگاہ تری

ہر طرح ہوشیار ہم بھی ہیں

غیر کا حال پوچھئے ہم سے

اس کے جلسے کے یار ہم بھی ہیں

کون سا دل ہے جس میں داغ نہیں

عشق میں یادگار ہم بھی ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *