دکھاتے آئینہ ہو اور مجھ میں جان نہیں (مومن خان مومن)

دکھاتے آئینہ ہو اور مجھ میں جان نہیں

کہو گے پھر بھی کہ میں تجھ سے بدگمان نہیں

ترے فراق میں آرام ایک آن نہیں

یہ ہم سمجھ چکے گر تو نہیں تو جان نہیں

پوچھو کچھ مرا احوال میری جاں مجھ سے

یہ دیکھ لو کہ مجھے طاقتِ بیاں نہیں

یہ گل ہیں داغِ جگر کے انہیں سمجھ کر چھیڑ

یہ باغ سینہِ عاشق ہے گلستان نہیں

شبِ فراق میں پہنچی نہ دل سے جان تلک

کہیں اجل بھی تو مجھ سی ہی ناتوان نہیں

وہ حال پوچھے ہے میں چشمِ سرمگیں کو دیکھ

یہ چپ ہوا ہوں کہ گویا میری زبان نہیں

نکل کے دیر سے مسجد  میں جا رہ اے مومن

خدا کا گھر تو ہے تیرے اگر مکان نہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *