جس سمت بھی وہ فتنئہ رفتار جائے گا
آنچل کے ساتھ سایئہ گلزار جائے گا
محشر میں بھی ہماری تلافی کے واسطے
اُس کی گلی کا سایئہ دیوار جائے گا
اے دوست! دردِ عشق ہو یا دردِ زندگی
دل میں جو بس چکا ہے وہ دشوار جائے گا
یہ ابرِ نو بہار، یہ فصلِ ہجومِ گل
دامن چھڑا کے ہم سے کہاں یار جائے گا
اے کاش فصلِ گل میں نکلے نہ وہ سیر کو
نکلا تو عاشقوں کو، عدم مار جائے گا