سن تو سہی جہاں میں ہے ترا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا
زیر زمیں سے آتا ہے جو گل زر بکف
قاروں نے راستے میں لٹایا خزانہ کیا
زینہ صبا کا ڈھونڈتی ہے اپنی مشت خاک
بامِ بلند، یار کا ہے آستانہ کیا
چاروں طرف سے صورتِ جاناں ہو جلوہ گر
دل صاف ہو ترا، تو ہے آئینہ خانہ کیا
طبل وعلم ہے پاس نہ اپنے ہے ملک و مال
ہم سے خلاف ہو کے کرے گا زمانہ کیا
یوں مدعی حسد سے نہ دے داد تو نہ دے
آتش غزل یہ تو نے کہی عاشقانہ کیا