یار کو میں نے، مجھے یار نے سونے نہ دیا
رات بھر طالع بیدار نے سونے نہ دیا
خاک پر سنگ در یار نے سونے نہ دیا
دھوپ میں سایہِ دیوار نے سونے نہ دیا
شام سے وصل کی شب آنکھ نہ جھپکی تا صبح
شادیِ دولتِ دیدار نے سونے نہ دیا
رات بھر کیں دلِ بے تاب نے باتیں مجھ سے
رنج و محنت کے گرفتار نے سونے نہ دیا
تکیہ تک پہلو میں اس گل نے نہ رکھا آتش
غیر کو ساتھ کبھی یار نے سونے نہ دیا