میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی نہیں
حادثہ کیا تھا جسے دل نے بھلایا بھی نہیں
جانے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی
تم چلے ہو تو کوئی روکنے والا بھی نہیں
دور و نزدیک سے اٹھتا نہیں شورِ زنجیر
اور صحرا میں کوئی نقشِ کفِ پا بھی نہیں
گل بہر رنگ تبسم کا گنہ گار رہا
زخمِ ہستی کا سوا اس کے مداوا بھی نہیں
کون سا موڑ ہے کیوں پاؤں پکڑتی ہے زمیں
اس کی بستی بھی نہیں، کوئی پکارا بھی نہیں
بے نیازی سے سبھی قریئہ جاں سے گزرے
دیکھتا کوئی نہیں ہے کہ تماشا بھی نہیں
وہ تو صدیوں کا سفر کر کے یہاں پہنچا تھا
تو نے منہ پھیر کے جس شخص کو دیکھا بھی نہیں