کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا (ندا فاضلی)

کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا

کہیں زمیں کہیں آسماں نہیں ملتا

تمام شہر میں ایسا نہیں خلوص نہ ہو

جہاں امید ہو اس کی وہاں نہیں ملتا

کہاں چراغ جلائیں کہاں گلاب رکھیں

چتھیں تو ملتی ہیں لیکن مکاں نہیں ملتا

یہ کیا عذاب ہے سب اپنے آپ میں گم ہیں

زباں ملی ہے مگر ہم زباں نہیں ملتا

چراغ جلتے ہی بینائی بجھنے لگتی ہے

خود اپنے گھر میں ہی گھر کا نشاں نہیں ملتا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *