یہ قرض تو میرا ہے چکائے گا کوئی اور
دکھ مجھ کوہے اور نیر بہائے گا کوئی اور
کیا پھر یوں ہی دی جائے گی اجرت پہ گواہی
کیا تیری سزا اب کے بھی پائے گا کوئی اور
انجام کو پہنچوں گا میں انجام سے پہلے
خود میری کہانی بھی سنائے گا کوئی اور
تب ہو گی خبر کتنی ہے رفتارِ تغیر
جب شام ڈھلے لوٹ کے آئے گا کوئی اور
امیدِ سحر بھی تو وراثت میں ہے شامل
شاید کہ دیا اب کے جلائےا گا کوئی اور
کب بارِ تبسم مرے ہونٹوں سے اٹھے گا
یہ بوجھ بھی لگتا ہے اٹھائے گا کوئی اور
اس بار ہوں دشمن کی رسائی سے بہت دور
اس بار مگر زخم لگائے گا کوئی اور
شامل پسِ پردہ بھی ہیں اس کھیل میں کچھ لوگ
بولے گا کوئی ہونٹ ہلائے گا کوئی اور