وفا کیسی؟
آج وہ آخری تصویر جلا دی ہم نے
جس سے اس شہر کے پھولوں کی مہک آتی تھی
جس سے بے نور خیالوں میں چمک آتی تھی
کعبئہ رحمتِ اصنام تھا جو مدت سے
آج اس قصر کی زنجیر ہلا دی ہم نے
آگ، کاغذ کے چمکتے ہوئے سینے پہ بڑھی
کرب کی لہر میں بہتے ہوئے آئے ساحل
مسکراتے ہوئے ہونٹوں کا سلگتا ہوا کرب
سرسراتے ہوئے لمحوں کے دھڑکتے ہوئے دل
جگمگاتے ہوئے آویزاں کی مبہم فریاد
دشتِ غربت میں کسی حجلہ نشیں کا محمل
ایک دن روح کا ہر تار صدا دیتا تھا
کاش ہم بک کے بھی اس جنس گراں مایہ کو پا لیں
خود بھی کھو جائیں پر اس رمزِ نہاں کو پالیں
عقل اس حور کے چہرے کی لکیروں کو اگر
آ مٹاتی تھی تو دل اور بنا دیتا تھا
اور اب یاد کے اس آخری پیکر کا طلسم
قصئہ رفتہ بنا زیست کی ماتوں سے ہوا
دور اک کھیت پہ بادل کا ذرا سا ٹکڑا
دھوپ کا ڈھیر ہوا دھوپ کے ہاتھوں سے ہوا
اس کا پیار اس کا بدن اس کا مہکتا ہوا روپ
آگ کی نذر ہوا اور انہی باتوں سے ہوا