کوئی رفیق بہم ہی نہ ہو تو کیا کیجے (مصفیٰ زیدی)

کوئی رفیق

کوئی رفیق بہم ہی نہ ہو تو کیا کیجے

کبھی کبھی ترا غم ہی نہ ہو تو کیا کیجے

ہماری راہ جدا ہے کہ ایسی راہوں پر

رواجِ نقشِ قدم ہی نہ ہو تو کیا کیجے

ہمیں بھی بادہ گساری سے عار تھی لیکن!

شراب ظرف سے کم ہی نہ ہو تو کیا کیجے

تباہ ہونے کا ارماں سہی محبت میں

کسی کو خوئے ستم ہی نہ ہو تو کیا کیجے

ہماری شعر میں روٹی کا ذکر بھی ہو گا

کسی کسی کے شکم ہی نہ ہو کیا کیجے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *