تلخ شکوے لبِ شیریں سے مزہ دیتے ہیں (ظہیر دہلوی)

تلخ شکوے لبِ شیریں سے مزہ دیتے ہیں

    گھول کر شہد میں وہ زہر پلا دیتے ہیں

یوں تو ہوتے ہیں محبت  میں جنوں کے آثار

اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں

پردہ اٹھے کہ نہ اٹھے مگر اے پردہ نشیں

 آج ہم رسم تکلف کو اٹھا دیتے ہیں

آتے جاتے نہیں کم بخت پیامی ان تک

جھوٹے سچے یوں ہی پیغام سنا دیتے ہیں

وائے تقدیر کے وہ خط مجھے لکھ لکھ کے  ظہیر

میری تقدیر کے لکھے کو مٹا دیتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *