راستہ سوچتے رہنے سے کب بنتا ہے (جلیل عالی)

راستہ سوچتے رہنے سے کب بنتا ہے

سر میں سودا ہو تو دیوار میں در بنتا ہے

آگ ہی آگ ہو سینے میں تو کیا پھول جھڑیں

شعلہ ہوتی ہے زباں لفظ شرر بنتا ہے

زندگی سوچ عذابوں میں گزاری ہے میاں

ایک دن میں کہاں انداز نظر بنتا ہے

مدعی تخت کے آتے ہیں چلے جاتے ہیں

شہر کا تاج کوئی خاک بسر بنتا ہے

عشق کی راہ کے معیار الگ ہوتے ہیں

ایک جدا زائچئہ نفع و ضرر بنتا ہے

اپنا اظہار اسیر روش عام نہیں

جیسے کہہ دیں وہی معیار ہنر بنتا ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *