جھڑکی سہی ، ادا سہی ، چینِ جبیں سہی
یہ سب سہی پر ایک نہیں کی نہیں سہی
مرنا مِرا جو چاہے تو لگ جا گلے سے ٹُک
اب کوئی دم یہ میرا دمِ واپسیں سہی
آگے بڑھے جو جاتے ہو کیوں کون ہے یہاں
جو بات ہم کو کہنی ہے تم سے نہیں سہی
گر نازنیں کے کہنے سے مانا برا ہو کچھ
میری طرف کو دیکھیو ، میں نازنیں سہی
منظور دوستی جو تمہیں ہے ہر ایک سے
اچھا تو کیا مضائقہ ، انشا سے کیں سہی