دہنِ یار یاد آتا ہے (فراق گورکھپوری)

دہنِ یار یاد آتا ہے

غنچہ اِک مسکرائے جاتا ہے

رہ بھی جاتی ہے یاد دشمن کی

دوست کو دوست بھول جاتا ہے

 پیکرِ ناز کی دمک، جیسے

کوئی دِھیمے سُروں میں گاتا ہے

جو افسانہ وہ آنکھ کہتی ہے

وہ کہیں ختم ہونے میں آتا ہے

دلِ شاعر میں آمدِ اشعار

جیسے تو سامنے سے جاتا ہے

میں تو میں مدعی کو بھی، اے دل!

تیری حالت پہ رحم آتا ہے

عشق ہے یا ندائے بے آواز

کون اس آنکھ کو جگاتا ہے

ہائے اہلِ جہاں کے قول و قرار

تیرا انکار یاد آتا ہے

 سرِ مشرق، پَسِ حجابِ شفق

کون ہر صبح مسکراتا ہے

کبھی اے دوست! رو بھی پڑتا ہوں

کبھی ، تیرا بھی دھیان آتا ہے

روئے جاناں ہے یا دلِ سوزاں

ایک شعلہ سا تھرتھراتا ہے

یاد آتا چلا وہ روئے نگار

ایک پردہ سا اٹھتا جاتا ہے

ہاں اٹھا لے کوئی تو کیا کہنا!

کون اپنا بھی غم اٹھاتا ہے

منتیں ہیں دلِ فسردہ کی

حُسن تیرا نکھرتا جاتا ہے

کوئی ہشیار ہو، کہ ناداں ہو!

ایک دھوکہ سا کھائے جاتا ہے

 خودکشی کوئی ایسی بات نہ تھی

تیرے غم کا خیال اتا ہے

راز میرا کوئی دلِ غمگیں

مجھ سے اب تک چھپائے جاتا ہے

قدِ رعنا ترا خیال ہے جو

درد بن بن کے اٹھتا جاتا ہے

اِک ترے نام کے سوا ہے کون

جو مصیبت میں کام آتا ہے

بجھ گئے سب چراغ، دل تو ہے

اِک چراغ اب بھی جھلملاتا ہے

خون ہو سو دلوں کا ، تب جا کر!

ایک گُل پر نکھار آتا ہے

خوش نصیبی بھی آڑے آ نہ سکے

ایک ایسا بھی وقت آتا ہے

 مرے مرنے پہ غم نہ کر اتنا!

 آدمی جلد بھول جاتا ہے

تجھ کو بھولے ہوا زمانہ ، مگر

نام سنتے ہی دل بھر آتا ہے

میں ہی جاتا نہیں جہاں سے فراق!

میرے ساتھ ایک دور جاتا ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *