جو کوئے دوست کو جاؤں تو پاسباں کے لیے (مصطفیٰ خان شیفتہ)

جو کوئے دوست کو جاؤں تو پاسباں کے لیے

نہیں ہے خواب سے بہتر کچھ ارمغاں کے لیے

تمام علت درماندگی ہے قلت شوق

تپش ہوئی پر پرواز مرغ جاں کے لیے

شریک بلبل و قمری ہیں وہ زبوں فطرت

جو بے قرار رہے سیر گلستاں کے لیے

امید ہے کہ نباہیں گے  امتحاں لے کر

جو اس قدر متقاضی ہیں امتحاں کے لیے

نہ خاکیوں سے تعلق نہ قدسیوں سے ربط

نہ ہم زمیں کے لیے ہیں نہ اآسماں کے لیے

پیام دوست ہوا قاصدوں کو وجہ شرف

نسیم مصر سے عزت ہے کارواں کے لیے

فسانے یوں محبت کے سچ ہیں پر کچھ کچھ

بڑھا بھی دیتے ہیں ہم زیب داستاں کے لیے

ہماری نظم میں ہے شیفتہ وہ کیفیت

کہ کچھ رہی نہ حقیقت مئے مغاں کے لیے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *