سنو! اب ہم محبت میں بہت آگے نکل آئے (خالد معین)

سنو! اب ہم محبت میں بہت آگے نکل آئے

کہ اک رستے پہ چلتے چلتے سو رستے نکل آئے

اگر چہ کم نہ تھی، چارہ گران شہر کی پرسش

مگر! کچھ زخم نادیدہ بہت گہرے نکل آئے

محبت کی تو کوئی حد، کوئی سرحد نہیں ہوتی

ہمارے درمیاں یہ فاصلے، کیسے نکل آئے

بہت دن تک حصار نشہ یکتائی میں رکھا

پھر اس چہرے کے اندر بھی کئی چہرے نکل آئے

پرانے زخم بھرتے ہی، نئے زخموں کے شیدائی

مزاج آئنہ اوڑھے ہوئے گھر سے نکل آئے

تضاد ذات کے باعث کھلا وہ کم سخن ایسا

ادھوری بات کے مفہوم بھی پورے نکل آئے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *