اک خانماں خراب کی دولت کہیں جسے
وہ درد دل میں ہے کہ محبت کہیں جسے
رعنائی خیال کے قربان جائیے
صورت ہے وہ نظر میں حقیقت کہیں جسے
درد فراق یار کی مجبوریاں بجا
اتنا تو ہو نہ شور قیامت کہیں جسے
دے سکتا ہو تو دے مجھے داد ستم کشی
یا وہ سلوک کر کہ عداوت کہیں جسے
لذت کش نظارہ ہے تیری نظر تو کیا
اتنی تو بےخودی ہو کہ حیرت کہیں جسے
باقی کہاں سے راز زمانے میں آج کل
وہ حسن دل نواز محبت کہیں جسے