وہ اجنبی تھا، غیر تھا، کس نے کہا نہ تھا (کشور ناہید)

وہ اجنبی تھا، غیر تھا، کس نے کہا نہ تھا

دل کو مگر یقیں کسی پر ہوا نہ تھا

ہم کو تو احتیاط غمِ دل عزیز تھی

کچھ اس لئے بھی کم نگہئی کا گلہ نہ تھا

دستِ خیالِ یار سے پھوٹے شفق کے رنگ

نقشِ قدم بھی رنگِ حنا کے سوا نہ تھا

کچھ اس قدر تھی گرمئی بازارِ آرزو!

دل جو خرید تا تھا اسے دیکھتا نہ تھا

کیسے کریں ذکرِ حبیبِ جفا پسند

جب نام دوستوں میں بھی لینا روا نہ تھا

کچھ یونہی زرد زرد سی ناہید آج تھی

کچھ اوڑھنی کا رنگ بھی کھِلتا ہوا نہ تھا 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *