آرہی ہے باغ سے مالن وہ اٹھلاتی ہوئی (جوش ملیح آبادی)

 مالن

آرہی ہے باغ سے مالن وہ اٹھلاتی ہوئی

مُسکرانے میں لبوں سے پھُول برساتی ہوئی

بار بار آنکھیں اُٹھاتی سانس لیتی تیز تیز

رس جوانی کا گھنی پلکوں سے ٹپکاتی ہوئی

پاؤں رکھتی ناز سے شبنم کے قطروں کی طرح

سبزۃ خوابیدۃ گلشن کو چونکاتی ہوئی

آستینوں میں جھلکاتی ہوئی بانہوں کا رنگ

کاکلوں میں سے کِرن پھولوں کو جھمکاتی ہوئی

نغمئہ گیسو سے ہر جھونکے میں بھرتی ہوئی بوئے گُل

نقشِ پا سے ہر روش پر خُون دوڑاتی ہوئی

نصف آنکھیں بند کر کے سونگھتی پھولوں کے ہار

ہر نفس بیہوش ہو کر ہوش میں آتی ہوئی

چھیڑ خود اپنے ہی آپ سے کرتی ہوئی مستانہ وار

ہر قدم پر کاکلوں کی طرح بل کھاتی ہوئی

اینڈتی ، مڑتی خود اپنی کمسنی سے کھیلتی

بھاگتی، رکتی، ٹھٹھکتی، بال بکھراتی ہوئی

گنگناتی، مسکراتی، لڑکھڑاتی، جُھومتی

 مثلِ ابرو اپنے ہی پُر پیچ و خم کھاتی ہوئی

پھول ہیں آنچل میں آنچل ٹوٹتا ہے دوش پر

اور آنچل پر گھنی زلفیں ہیں لہراتی ہوئی

ہائے کیا گوری کلائی میں ہے لچھا دلفریب

ہائے کیا چاندنی کی شکل ہے ستم ڈھاتی ہوئی

جوۤش پوچھے کوئی اس گل پیرہن مالن کا نام

آرہی ہے جو غنچئہ دل کو چٹکاتی ہوئی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *