عجب حسن ٹپکتا ہے چشمِ ابرو سے (جوش ملیح آبادی)

عجب حسن ٹپکتا ہے چشمِ ابرو سے

مہک رہی ہے ہوا کمسنی کی خوشبو سے

مقابلہ جو کرے کوئی چاند پھیکا ہے

جبیں شوخ پہ صندل کا سرخ ٹیکا ہے

نمی ہے زلف میں اشنان کر کے نکلی ہے

یہ کس کی موت کا سامنا کر کے نکلی ہے؟

سیاہ زلف پہ آنچل خفیف آبی ہے

برہنہ پاہے تو ہر نقش گلابی ہے

مری طرف سے کوئی کاش یوں ہو گرم خطاب

کہ وقتِ صبح ہے اے دخترِ شبِ ماہتاب

ازل کے دن سے درِ حسن کا بکھاری ہوں

ادھر بھی ایک نظر میں ترا پجاری ہوں ؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *