وہ دل نواز ہے لیکن نظر شناس نہیں (ناصر کاظمی)

وہ دل نواز ہے لیکن نظر شناس نہیں

مرا علاج مرے چارہ گر کے پاس نہیں

تڑپ رہے ہیں زباں پر کئی سوال مگر

مرے لئے کوئی شایانِ التماس نہیں

ترے جلو میں بھی دل کانپ کانپ اٹھتا ہے

مرے مزاج کو آسودگی بھی راس نہیں

کبھی کبھی جو ترے قرب میں گزرے تھے

اب ان دنوں کا تصور بھی مرے پاس نہیں

گزر رہے ہیں عجب مرحلوں سے دیدہ و دل

سحر کی آس تو ہے زندگی کی آس نہیں

مجھے یہ ڈر ہے تری آرزو نہ مٹ جائے

بہت دنوں سے طبیعت مری اداس نہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *