رات دن سوگ ہی مناتے ہیں (غدیر غازل)

رات دن سوگ ہی مناتے ہیں

ہم کہاں گھومنے کو جاتے ہیں

لوگ اس طرح سے ستاتے ہیں

میرے رونے پہ مسکراتے ہیں

پہلے اٹھتی تھیں انگلیاں ان کی

اور اب ہاتھ بھی اٹھاتے ہیں

یار ! پتھر کے اس زمانے میں

لوگ آئینہ کیوں بناتے ہیں ؟

ہجر کی شب یہ کام ہی ٹھہرا

لو بجھاتے ہیں پھر جلاتے ہیں

اس کے کوچے میں جی نہیں لگتا

اب کہیں اور جی لگاتے ہیں

لوگ ایسے بھی ہیں کہ جو مجھ کو

بھول جانے پہ یاد آتے ہیں

حادثے زہن میں نہیں رہتے

یاد کرتے ہیں بھول جاتے ہیں

گھر کا دروازا کھول رکھا ہے

روز صدمے جو آتے جاتے ہیں

منزلیں مل گئیں انھیں غازل ؔ

اب وہ بس راستہ بتاتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *