ذرا نگاہ اٹھاؤ کہ غم کی رات کٹے
نظر نظر سے ملاؤ کہ غم کی رات کٹے
اب آ گئے ہو تو میرے قریب آ بیٹھو
دوئی کے نقش مٹاؤ کہ غم کی رات کٹے
شبِ فراق ہے ، شمعِ امید لے آؤ
کوئی چراغ جلاؤ کہ غم کی رات کٹے
کہاں ہیں ساقی و مُطرب کہاں ہے پیرِ حرم
کہاں ہیں سب یہ بلاؤ کہ غم کی رات کٹے
کہاں ہو میکدے والو ! ذرا اِدھر آؤ
ہمیں بھی آج پلاؤ کہ غم کی رات کٹے
نہیں کچھ اور جو ممکن تو یار شعلہ کی
کوئی غزل ہی سناؤ کہ غم کی رات کٹے