حادثے کیا کیا تُمہاری بے رُخی سے ہو گئے (ساغر صدیقی)

حادثے کیا کیا تُمہاری بے رُخی سے ہو گئے

ساری دُنیا کے لیے ہم اجنبی سے ہو گئے

کچُھ تمہارے گیسوؤں کی برہمی نے کر دئیے !

کچُھ اندھیرے میرے گھر میں روشنی سے ہو گئے

بندہ پرور، کُھل گیا ہے آستانوں کا بَھرم

آشنا کچھ لوگ رازِ بندگی سے ہو گئے

گردشِ دَوراں، زمانے کی نظر، آنکھوں کی نیند !

کتنے دُشمن، ایک رسمِ دوستی سے ہو گئے

زندگی آگاہ تھی صیّاد کی تدبیر سے !

ہم، اسیرِ دامِ گُل اپنی خوشی سے ہو گئے

اب کہاں اے دوست، چشمِ منتظر کی آبرو

اب تو اُن کے عہد و پیماں ہر کِسی سے ہو گئے

ہر قدم ساغر! نظر آنے لگی ہیں منزلیں

مرحلے کچُھ طے مِری آوارگی سے ہو گئے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *