Category «اسداللہ غالب»

کہتے ہو نہ دیں گے ہم ، دل اگر پڑا پایا (مرزا غالب)

کہتے ہو نہ دیں گے ہم ، دل اگر پڑا پایا دل کہاں کہ گم کیجے، ہم نے مدعا پایا عشق سے طبیعت نے زیست کا مزہ پایا درد کی دوا پائی ، دردِ بے دوا پایا دوستدارِ دشمن ہے ، اعتمادِ دل معلوم! آہ بے اثر دیکھی ، نالہ نارسا پایا سادگی و پُرکاری …

غیر لیں محفل میں بوسے جام کے (مرزا غالب)

غیر لیں محفل میں بوسے جام کے ہم رہیں یوں تشنہ لب پیغام کے خستگی کا تم سے کیا شکوہ کہ یہ ہتکھنڈے ہیں چرخ نیلی فام کے خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے رات پی زمزم پہ مے اور صبح دم دھوئے دھبے جامۂ احرام …

سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں (مرزا غالب)

سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیں لیکں اب نقش و نگارِ طاقِ نسیاں ہو گئیں جوئے خوں آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شامِ فراق میں یہ سمجھوں گا کہ شمعیں دو …

درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے (مرزا غالب)

درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے  کیا ہوئی ظالم تری غفلت شعاری ہائے ہائے تیرے دل میں گر نہ تھا آشوبِ غم کا حوصلہ  تو نے پھر کیوں کی تھی میری غم گساری ہائے ہائے کیوں مری غم خوارگی کا تجھ کو آیا تھا خیال  دشمنی اپنی تھی میری دوست داری …

کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنجِ فغاں کیوں ہو (مرزا غالب)

کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنجِ فغاں کیوں ہو نہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو   وہ اپنی خُو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں سُبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سرگراں کیوں ہو   وفا کیسی کہاں کا عشق …

کب سے ہوں کیا بتاؤں جہانِ خراب میں (مرزا غالب)

کب سے ہوں کیا بتاؤں جہانِ خراب میں شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں   تا پھر نہ انتطار میں نیند آئے عمر بھر آنے کا وعدہ کر گئے آئے جو خواب میں   قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے خط کے …

درد منت کشِ دوا نہ ہوا (مرزا غالب)

درد منت کشِ دوا نہ ہوا میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا   جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو اک تماشہ ہوا گلہ نہ ہوا   کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا   ہے خبر گرم ان کے آنے کی آج ہی گھر میں بوریا نہ …

شوق ہر رنگ رقیبِ سرو ساماں نکلا (مرزا غالب)

شوق ہر رنگ رقیبِ سرو ساماں نکلا قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا   زخم نے داد نہ دی تنگئی دل کی یارب تیر بھی سینئہ بسمل سے پُرافشاں نکلا   بوئے گل، نالئہ دل ، دودِ چراغِ محفل جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا   دلِ حسرت زدہ تھا مائدۃ …

غزل (مرزا غالب)

  دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں روئیں گے ہزار بار کوئی ہمیں رلائے کیوں   دیر نہیں حرم نہیں ، در نہیں آستاں نہیں بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم، غیر ہمیں اٹھائے کیوں   جب وہ جمالِ دل فروز، صورتِ مہرِ نیم روز آپ ہی …

دل سے تِری نگاہ جگر تک اتر گئی (مرزا غالب)

  دل سے تِری نگاہ جگر تک اتر گئی دونوں کو اک ادا میں رضا مند کر گئی   وہ بادۃ شبانہ کی سرمستیاں کہاں اٹھیے بس اب کہ لذتِ  خوابِ سحر گئی   اڑتی پھرتی ہے خاک مِری کوئے یار میں بارے اب اے ہوا ہوسِ بال و پر گئی   دیکھو تو دلفریبیِ …