Category «اسداللہ غالب»

دل سے تِری نگاہ جگر تک اتر گئی (مرزا غالب)

دل سے تِری نگاہ جگر تک اتر گئی دونوں کو اک ادا میں رضا مند کر گئی وہ بادۃ شبانہ کی سرمستیاں کہاں اٹھیے بس اب کہ لذتِ  خوابِ سحر گئی اڑتی پھرتی ہے خاک مِری کوئے یار میں بارے اب اے ہوا ہوسِ بال و پر گئی دیکھو تو دلفریبیِ اندازِ نقشِ پا موجِ …

درد منت کشِ دوا نہ ہوا (مرزا غالب)

درد منت کشِ دوا نہ ہوا میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو اک تماشہ ہوا گلہ نہ ہوا کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا ہے خبر گرم ان کے آنے کی آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا جان دی …

پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا​ (مرزا غالب)

پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا​ دل، جگر تشنۂ فریاد آیا​ ​ دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز​ پھر ترا وقتِ سفر یاد آیا​ ​ سادگی ہائے تمنا، یعنی​ پھر وہ نیرنگِ نظر یاد آیا​ ​ عذرِ واماندگی، اے حسرتِ دل!​ نالہ کرتا تھا، جگر یاد آیا​ ​ زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی​ …

بازیچئہ اطفال ہے دنیا مِرے آگے (مرزا غالب)

بازیچئہ اطفال ہے دنیا مِرے آگے ہوتا ہے شب و روز تماشا مِرے آگے ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مِرے آگے عاشق ہوں پہ معشوق فریبی ہے مِرا کام مجنوں کو بُرا کہتی ہے لیلیٰ مِرے اگے گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم …

آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک (مرزا غالب)

آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک کون جیتا ہے تِری زلف کے سر ہونے تک دامِ ہر موج میں ہے  حلقئہ صد کام نہنگ دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب دل کا کیا  رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک ہم نے مانا کہ …

؛یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا (مرزا غالب)

؛یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا تِرے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا کوئی میرے دل سے پوچھے تِرے تیرِ نیم کش کو یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا …

یک ذرّہ زمیں نہیں بیکار، باغ کا(مرزا غالب)

یک ذرّہ زمیں نہیں بیکار، باغ کا یاں جادہ بھی، فتیلہ ہے لالے کے داغ کا بے مے ، کسے ہے طاقتِ آشوبِ آگہی کھینچا ہے عجزِ حوصلہ نے خط ایاغ کا بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہائے گل کہتے ہیں جس کو عشق، خلل ہے دماغ کا تازہ نہیں ہے نشۂ فکرِ سخن مجھے …

ہے بسکہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور (مرزا غالب)

ہے بسکہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور کرتے ہیں محبت تو گزرتا ہے گماں اور یارب نہ وہ سمجھے ہیں نہ وہ سمجھیں گے مِری بات دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور تم شہر میں ہو تو ہمیں کیا غم جب اٹھیں گے لے آئیں گے …

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے (مرزا غالب

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے بہت نکلے مرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے نکلنا خُلد سے آدم کا تو سنتے آئے ہیں لیکن بہت بے آبرو ہو کر تِرے کوچے سے ہم نکلے ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی وہ ہم سے بھی زیادہ خستئہ تیغِ ستم …

مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے (مرزا غالب)

مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے جوشِ قدح سے بزم چراغاں کیے ہوئے پھر چاہتا ہوں نامئہ دل دار کھولنا جاں نذرِ دل فریبیِ عنواں کیے ہوئے پھر جی میں ہے در پہ کسی کے پڑے رہیں سر زیر بارِ منتِ درباں کیے ہوئے جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن …