Category «قتیل شفائی»

تمھاری انجمن سے اٹھ کے دیوانے کہاں جاتے (قتیل شفائی)

تمھاری انجمن سے اٹھ کے دیوانے کہاں جاتے جو وابستہ ہوئے تم سے وہ افسانے کہاں جاتے   نکل کر دیرو کعبہ سے اگر ملتا نہ مے خانہ تو ٹھکرائے ہوئے انساں خدا جانے کہاں جاتے   تمھاری بے رخی نے لاج رکھ لی بادہ خانے کی تم آنکھوں سے پلا دیتے تو مے خانے …

دل پہ آئے ہوئے الزام سے پہچانتے ہیں (قتیل شفائی)

دل پہ آئے ہوئے الزام سے پہچانتے ہیں لوگ اب مجھ کو تِرے نام سے پہچانتے ہیں   آئنہ دارِ محبت ہوں کہ اربابِ وفا اپنے غم کو مِرے نام سے پہچانتے ہیں   باد و جام بھی اک وجہِ ملاقات سہی ہم تجھے  گردشِ ایام سے پہچانتے ہیں   پو پھٹے کیوں مِری پلکوں …

گرمئی حسرتِ ناکام سے جل جاتے ہیں (قتیل شفائی)

گرمئی حسرتِ ناکام سے جل جاتے ہیں ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں   شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کے لیے ہم اُسی آگ میں گمنام سے جل جاتے ہیں   بچ نکلتے ہیں اگر آتشِ سیال سے ہم شعلئہ عارضِ گلفام سے جل جاتے ہیں   خودنمائی تو نہیں …

شاعری سچ بولتی ہے (قتیل شفائی)

لاکھ پردوں میں رہوں بھید مرے کھولتی ہے شاعری سچ بولتی ہے میں نے دیکھا ہے کہ جب میری زباں ڈولتی ہے شاعری سچ بولتی ہے تیرا اصرار کہ چاہت مری بے تاب نہ ہو واقف اس غم سے مرا حلقئہ احباب نہ ہو تو مجھے ضبط کے صحراؤں میں کیوں رولتی ہے شاعری سچ …

دیکھ بٹیا یہ تِرےے ہی فائدے کی بات ہے(قتیل شفائی)

  نائیکہ دیکھ بٹیا یہ تِرےے ہی فائدے کی بات ہے   دیکھ جھٹلایا نہیں کرتے بڑے بوڑھوں کی بات تو نہ مانے گی تو اِس بازی میں کھا جائے گی  مات واری جاؤں یہ جہاں جو کچھ بھی کہتا ہے کہے تجھ میں کوئی عیب ہے جو ایک کی ہو کر رہے؟ اِس طرح …