Category «شاعری»

یہ وقتِ عصر ہے لہجے میں پیاس شامل کر (احمد عطاءاللہ)

یہ وقتِ عصر ہے لہجے میں پیاس شامل کر دعائے شام میں خالی گلاس شامل کر تُو اپنے وصل کے اس میٹھے لال شربت میں ہماری مان زرا سی کھٹاس شامل کر یہ ریشمی ہمیں گمراہ کرتا ریتا ہے بدن بُنت میں بہت سی کپاس شامل کر ہمارا فیصلہ سابق مثال سے تو نہ ہو …

آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا (احمد فراز)

آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا اتنا مانوس نہ ہو خلوت غم سے اپنی تو کبھی خود کو بھی دیکھے گا تو ڈر جائے گا ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں میں نہیں کوئی تو ساحل پہ اتر جائے گا زندگی …

انہی خوش گمانیوں میں کہیں جان سے بھی نہ جاؤ (احمد فراز)

انہی خوش گمانیوں میں کہیں جان سے بھی نہ جاؤوہ جو چارہ گر نہیں ہے اسے زخم کیوں دکھاؤ یہ اداسیوں کے موسم کہیں رائے گان نا جائیںکسی زخم کو کریدو کسی درد کو جگاؤ وہ کہانیاں ادھوری جو نا ہو سکیں گی پوریانہیں میں بھی کیوں سنائوں انہیں تم بھی کیوں سناؤ ؟ میرے …

بولی خود سر ہوا ایک ذرہ ہے تو (اخترالایمان)

اعتماد بولی خود سر ہوا ایک ذرہ ہے تو یوں اڑا دوں گی میں ، موجِ دریا بڑھی بولی میرے لئے ایک تنکا ہے تو یوں بہادوں گی میں ، آتشِ تند کی ایک لپٹ نے کہا میں جلادوں گی اور زمیں نے کہا میں نگل جاؤں گی میں نے چہرے سے اپنے الٹ دی …

آؤ کہ جشنِ مرگِ محبت منائیں ہم (اخترالایمان)

آخری ملاقات آؤ کہ جشنِ مرگِ محبت منائیں ہم !آتی نہیں کہیں سے دلِ زندہ کی صدا سونے پڑے ہیں کوچہ و بازار عشق کے ہے شمعِ انجمن کا نیا حسن جاں گداز شاید نہیں رہے وہ پتنگوں کے ولولے تازہ نہ رہ سکیں گی روایاتِ دشت و در وہ فتنہ سر گئے جنہیں کانٹے …

اب ترے رُخ پر محبت کی شفق پھولی تو کیا (احمد ندیم قاسمی)

اب ترے رُخ پر محبت کی شفق پھولی تو کیا حسن بر حق ہے ، مگر جب بجھ چکا ہو جی تو کیا جب ترا کہنا ہے ، تو تقدیر کا محکوم ہے تُو نے نفرت کی تو کیا، تُو نے محبت کی تو کیا اب کہاں سے لاؤں وہ آنکھیں جو لذت یاب ہوں …

کیسی وفا و اُلفت، کھاتے عبث ہو قسمیں (میر تقی میر)

کیسی وفا و اُلفت، کھاتے عبث ہو قسمیں مدت ہوئی اٹھا دیں تم نے یہ ساری رسمیں ساون تو اب کے ایسا برسا نہیں، جو کہیے روتا رہا ہوں میں ہی دن رات اس برس میں گھبرا کے یوں لگے ہے سینے میں دل تڑپنے جیسے اسیرِ تازہ بے تاب ہو قفس میں جاں کاہ …

یارنے ہم سے بے ادائی کی(میر تقی میر)

یار نے ہم سے بے ادائی کی  وصل کی رات میں لڑائی کی  بال و پر بھی گئے بہار کے ساتھ  اب توقع نہیں رہائی کی  کلفت رنج عشق کم نہ ہوئی  میں دوا کی بہت شفائی کی  طرفہ رفتار کے ہیں رفتہ سب  دھوم ہے اس کی رہ گرائی کی  خندۂ یار سے طرف …

بیٹھا ہوں جوں غبار ضعیف اب وگرنہ میں (میر تقی میر)

بیٹھا ہوں جوں غبار ضعیف اب وگرنہ میں پھرتا رہا ہوں گلیوں میں آوارہ گرد سا قصدِ طریقِ عشق کیا سب نے بعد قیس لیکن ہوا نہ ایک بھی اُس رہ نورد سا کیا میر ہے یہی جو ترے در پہ تھا کھڑا نم ناک چشم و خشک لب و رنگ زرد سا کس شام …

اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا (میر تقی میر)

اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا  لوہو آتا ہے جب نہیں آتا ہوش جاتا نہیں رہا لیکن  جب وہ آتا ہے تب نہیں آتا صبر تھا ایک مونس ہجراں  سو وہ مدت سے اب نہیں آتا دل سے رخصت ہوئی کوئی خواہش  گریہ کچھ بے سبب نہیں آتا عشق کو حوصلہ ہے شرط ورنہ  بات …