وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا (پروین شاکر)

 

وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا

مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا

 

ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا

کیا خبر تھی کہ رگِ جاں میں اتر جائے گا

 

وہ ہواؤں کی طرح خانہ بجاں پھرتا ہے

ایک جھونکا ہے جو آئے گا گزر جائے گا

 

وہ جب آئے گا تو اس کی رفاقت کے لئے

موسمِ گل مرے آنگن میں ٹھہر  جائے گا

 

آخرش وہ بھی کہیں ریت پہ بیٹھی ہوگی

تیرا یہ پیار بھی دریا ہے اتر جائے گا

 

مجھ کو تہذیب کے برزخ کا بنایا وارث

جرم یہ بھی مرے اجداد کے سر جائے گا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *