شام آئی ، تری یادوں کے ستارے نکلے (پروین شاکر)

 

شام آئی ، تری یادوں کے ستارے نکلے

رنگ ہی غم کے نہیں،  نقش بھی پیارے نکلے

 

ایک موہوم تمنا کے سہارے نکلے

چاند کے ساتھ ہجر کے مارے نکلے

 

کوئی موسم ہو مگر شانِ خم و پیچ ہے وہی

رات کی طرح کوئی زلف سنوارے نکلے

 

رقص جن کا ہمیں ساحل سے بہا لایا تھا

وہ بھنور آنکھ تک آئے تو کنارے نکلے

 

وہ تو جاں لے کے بھی ویسا ہی سبُک نام رہا

عشق کے باب میں سب جرم ہمارے نکلے

 

عشق دریا ہے ، جو تیرے وہ تہی دست رہے

وہ جو ڈوبے ، کسی اور کنارے نکلے

 

دھوپ کی رُت میں کوئی چھاؤں اگاتا کیسے

شاخ پھوٹی تھی کہ ہمسایوں کے آرے نکلے

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *