اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں (احمد فراز)

 

اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں

 جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

 

ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی

یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں

 

غمِ دنیا بھی غمِ یار میں شامل کر لو

نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں

 

تو خدا ہے نہ مرا عشق فرشتوں جیسا

دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں

 

آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر

کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں

 

اب نہ وہ ہیں نہ وہ تو ہے نہ وہ ماضی ہے فراز

جیسے دو سائے تمنا کے سرابوں میں ملیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *