مِرے غنیم نے مجھ کو پیام بھیجا ہے (احمد فراز)

محاصرہ

مِرے غنیم نے مجھ کو پیام بھیجا ہے

کہ حلقہ زن ہیں مِرے گرد لشکری اس کے

فصیلِ شہر کے ہر برج ہر منارے پر

کماں بدست ستادہ ہیں عسکری اُس کے

وُہ برقِ لہر بجھا دی گئی ہے جس کی تپش

وجودِ خاک میں آتش فشاں جگاتی تھی

بچھا دیا گیا ہے بارود اُس کے پانی میں

وہ جوئے آب جو میری گلی کو آتی تھی

سبھی دریدہ دہن اب بدن دریدہ ہوئے

سپُردِ دار و رسن سارے سر کشیدہ ہوئے

تمام صوفی و سالک سبھی شیوخ و امام

امیدِ لطف پہ ایوانِ کجکلاہ میں ہیں

معززینِ عدالت حلف اُٹھانے کو

مثالِ سائلِ مبرم نشستہ راہ میں ہیں

تم اہلِ حرف کے پندار کے ثناگر تھے

وہ آسمانِ ہنر کے نجُوم سامنے ہیں

بس اِک  مصاحبِ دربار کے اشارے پر

گداگرانِ سخن کے ہجُوم سامنے ہیں

قلندرانِ وفا کی اساس تو دیکھو

تمھارے پاس ہے کون آس پاس تو دیکھو

سو شرط یہ ہے جو جاں کی اماں چاہتے ہو

تو اپنے لوح و قلم قتل گاہ میں رکھ دو

وگرنہ اب کے نشانہ کمانداروں کا

بس ایک تم ہو سو غیرت کو راہ میں رکھ دو

یہ شرط نامہ جو دیکھا تو ایلچی سے کہا

اُسے خبر نہیں تاریخ کیا سکھاتی ہے

کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے

تو صبح ایک نیا سورج تراش لاتی ہے

سو یہ جواب ہے میرا عدو کے لیے

کہ مجھ کو حرصِ کرم ہے نہ خوفِ خمیازہ

اُسے ہے سطوتِ شمشیر پہ گھمند بہت

اُسے شکوہِ قلم کا نہیں ہے اندازہ

مِرا قلم نہیں کردار اُس محافظ کا

جو اپنے شہر کو محصور کر کے ناز کرے

مِرا قلم نہیں کاسہ کسی سبک سر کا

جو غاصبوں کا قصیدوں سے سرفراز کرے

مِرا قلم نہیں اوزار اُس نقب زن کا

جو اپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے

مِرا قلم نہیں اُس دزدِ نیم شب کا رفیق

جو بے چراغ گھروں پر کمند اچھالتا ہے

مِرا قلم نہیں تسبیح اس مبلغ کی

جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے

مِرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کی

جو اپنے چہرے پہ دُہرا نقاب رکھتا ہے

مرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی

مِرا قلم تو عدالت مِرے ضمیر کی ہے

اِسی لیے تو جو لکھا تپاکِ جاں سے لکھا

جبھی تو لوچ کماں کا زبان تیر کی ہے

میں کٹ گروں کہ سلامت رہوں یقیں ہے مجھے

کہ یہ حصارِ ستم کوئی تو گرائے گا

تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم

مِرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا

سرشتِ عشق نے افتادگی نہیں پائی

تو قدِ سرو نہ بینی و سایہ پیمائی!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *