آنکھیں چرا کے ہم سے بہار آئے، یہ نہیں (جاں نثار اختر)

آنکھیں چرا کے ہم سے بہار آئے، یہ نہیں

حصے میں اپنے صرف غبار آئے، یہ نہیں

کوئے غمِ حیات میں سب عمر کاٹ دی

تھوڑا سا وقت واں بھی گزار آئے، یہ نہیں

خود عشق قربِ جسم بھی ہے، قربِ جاں کے ساتھ

ہم دور ہی سے اُن کو پکار آئے ، یہ نہیں

آنکھوں میں دل کھِلے ہوں تو موسم کی قید کیا

فصلِ بہار ہی میں بہارآئے ، یہ نہیں

اب کیا کریں کہ حسن جہاں سے عزیز ہے

تیرے سوا کسی پہ نہ پیار آئے، یہ نہیں

وعدوں کو خونِ دل سے لکھو تب تو بات ہے

کاغذ پہ قسمتوں کو سنوار آئے، یہ نہیں

کچھ روز اور کل کی مروت میں کاٹ لیں

دل کو یقینِ وعدۃ یار آئے، یہ نہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *